Pukhtoon Students Federation

Pukhtoon Students Federation
A student organization that is leftist, secular, liberal, progressive and nationalist in nature. It is the student wing of Awami National Party. It was formed in 1968. It is present in numerous educational institutions of Pakistan. Bashir Sherpao from Charsadda, Peshawar is the President of PSF.

University Of Malakand

University Of Malakand
A public university located in Chakdara, Dir Valley of Kyber Pukhtoonkhwa i-e- Malakand Division. It was founded in 2001 by the then President Pervez Musharraf. It provides regular & private Bachelors degrees (BA/BSc/BBA/BIT/BCom/BCS), regular Honours degrees (BA Hons/BS Hons/BBA Hons/BBT Hons/PharmD/BCS Hons/BIT Hons), Master degrees (MA/MSc/MCS/MBA/BEd/LLB/MCom/MIT) & post-graduate degrees such as MPhil, MS & PhD in various disciplines & MEd. It has 14 departments. Dr Rasool Jan from Kabal, Swat is it's Vice-Chancellor & Governer NWFP Owais Ghani is it's Chancellor. Zeeshan Khan Sawabiwal is the President of Pukhtoon Students Federation there. It has 3 hostels i-e- Girls Hostel, Asif Aziz Hostel & Khalid Osman Hostel.

Tuesday, August 3, 2010

Karachi Target Killing by Zahid Buneri

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے اسباب کا مختصر جائزہ



زاہد بونیرے



تعارف

مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے پاکستانی سیاست میں تشدد کو فروغ دینے والے حالیہ متحدہ قومی موومنٹ کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اورایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1990ء کی دہائی میں ہی سیاسی تشدد، دہشت گردمسلح فورس کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے محاذ آرائیوں میں ملوث ہونے کی بناءپردہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور کینڈا کی عدالت کے فیصلے کے بعد دہشت گرد تنظیم ہونے کے باعث الطاف حسین کو دہشت گرد گروہ کا سربراہ قرار دے کر مملکت میں داخلے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔

جماعت اسلامی کی دوغلی پالیسوں کی بناء پراردو بولنے والے عوام کی اکثریت مہاجر قومیت کے دلفریب نعرے میں الجھ کر دہشت گرد جماعت کے ہاتھوں یر غمال بنتے چلے گئے اور بتدریج اردو بولنے جو کبھی باشعور اور تعلیم یافتہ ہونے کی بناءپر باعث تکریم ہوتے تھے اب نہ چاہتے ہوئے بھی دہشت گردوں کے وجہ سے نہ صرف تعلیمی طور پر دور ہوتے چلے گئے بلکہ دنیا میں ان کی پہچان دہشت گرد کے طور پر ابھرنے لگیاردو بولنے والوں کی اکثریت ایم کیو ایم سے شدید نالاں ہیں اس ہی بناءپر عظیم طارق جیسی شخصیت کو خود ایم کیو ایم نے ختم کرادیا کیونکہ الطاف حسین، سلیم شہزاد، ڈاکٹر عمران فاروق کی متششدد پالیسوں کے شدید مخالف تھےایم کیو ایم اپنی جماعت کے علاوہ کارکن کو کسی دوسری جماعت میں جانے پر غداری کے برابر قرار دے کر موت کی سزا دیتی ہے



ٹارگٹ کلنگ

ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرست جماعتوں کے درمیان ایک سلسلہ 1995میں جاری ہوا US Dos Feb 1996کے مطابق ایک سال میں 1800سیاسی کارکنان کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا

12مئی 2007ءکے خون آشام دن 55 بے گناہ انسانوں کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا جن کے لواحقین ہنوز انصاف کے منتظر ہیں

12مئی 2007ءعوامی نیشنل پارٹی سندھ کے 60کارکنان و عہدے داران زخمی ہوئے12مئی 2007ء17 کارکنان شہید ہوئے

29نومبر 2008ءسے اب تک 107 کارکنان کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی کوشش میں زخمی کیا جاچکا ہے

2009ءکے سال میں 25 کارکنان و عہدے داران کو ٹارگٹ کلنگ کرکے شہید کیا جاچکا ہے

30 جنوری 2010 ءسے یکم فروری 2010ء30 بے گناہ پختونوں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کیا گیا

مئی 2010ءکے مہینے میں 22 پختونوں کو ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کیا گیا جس میں 10 اے این پی کے کارکنان و عہدے داران تھے جنھیں گھات لگا کر شہید کیا گیاجون 2010ء سے ا ب تک 32 پختونوں کو شہید کیا گیا جن میں 7 اے این پی کے کارکنان و عہدے داران تھے

ٹارگٹ کلنگ کے تمام واقعات اردو بولنے والے علاقوں میں متحدہ کے زیر اثر علاقوں میں ہوئے جن میں سر فہرست قصبہ کالونی، نارتھ ناظم آباد، کریم آباد، لیاقت آباد، نئی کراچی، سرجانی ٹاﺅن، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی،ملیر کے علاقے شامل ہیں

پختون اکثریتی علاقوں میں ایک بھی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ رونما نہیں ہوااگر ایسا ہوتا تو اردو بولنے عام افراد کی تعداد ناقابل شمار ہوتیٹارگٹ کلنگ میں پہلا ہدف پختون ڈرائیور حضرات ، ٹرانسپوٹرز، پتھارے دار، ہوٹل ، ہارڈ ویئر کی دکانیں ، قالین اور کپڑا مارکیٹ ، موچی بنتے ہیں حالیہ واقعات میں اے این پی کے دھوراجی وارڈ، محمود آباد وارڈ اور کھڈا مارکیٹ وارڈ کو آتش گیر مادے سے جلا دیا گیا



بھتہ خوری

ایم کیو ایم نے بھتہ خوری کی ابتدا رہائشی علاقوں سے شروع کی اور علاقے میں ہر گھر سے 30روپے اور دکانوں سے 50 روپے اور مارکیٹ یونین سے 2000روپے کی ماہانہ پرچی دے کر لاکھوں گھروں دکانوں سے بھتہ وصول کرنا شروع کیا گیا فطرہ کے نام سے ہر رمضان میں خصوصی طور کروڑوں روپے، اور عید قربان کو کھالوں کی مد میںاربوں روپے لندن سیکرٹریٹ ارسال کئے جاتے ہیں

سرکاری ملازمین کے فنڈ سے حق پرست شہداءفنڈ کے نام پر 200روپے ماہانہ،یونین ناظمین ، سٹی کونسلرز سے 500روپے ماہانہ ، وزراءکی تنخواہ کی پانچ فیصد اور سرکاری ٹھیکوں میں 15فیصد کے نام سے باقاعدہ بھتہ وصول کیا جاتا ہےگلستان جوہر ، گلشن اقبال ، سخی حسن ، طارق روڈ جیسے علاقوں کے ہزاروں فلیٹوں میں ہر پراجیکٹ میں ایم کیو ایم کے یونٹ آفس قائم ہیں جہاں مینٹیننس کے نام پر ہر فلیٹ سے ماہانہ بھتہ یونین وصول کرتی ہے کراچی کے 70فیصد فلیٹوں کے پراجیکٹ میں صرف ایم کیو ایم کے دفاتر قائم ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کو دفتر قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے



ڈرگ مافیا

ایم کیو ایم نے غیر اردو بولنے والے جرائم پیشہ افراد کے لئے مختلف ناموں سے علاقائی کمیٹیاں تشکیل دیں جن میں پی پی او سی، سندھی آرگنائزنگ کمیٹی، سرائیکی قومی کمیٹی،پنجاب آرگنائزنگ کمیٹی وغیرہ شامل ہیں ، پی پی او سی میں شیر پاءکالونی ، فرئیٹیر کالونی، نارتھ ناظم آباد اور قصبہ کالونی کے منشیات فروشوں کی سر پرستی کی جاتی ہے جہاںمتحدہ کے حمایتی کھلے عام منشیات کا کاروبار کرتے ہیں



اسلحہ مافیا

متحدہ نے سیاست میں تشدد کو فروغ ناجائز اور غیر قانونی اسلحے کے حصول دیا،ابتدائی طور پی پی او سی میں شامل ضمیر فروش لوگوں کی مدد سے قبائلی علاقو ں سے اسلحہ آتا ،لیکن اس سے ان کے مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں تھی لہذا سندھی کمیٹی کے ذریعے بدنام زمانہ نثار پہنور جیسے لوگو ں کو پڑوسی ملک سے اسلحے کی ترسیل پر ما مور کیا گیا نثار پہنور اور یو سی ناظمین پر اسلحہ اسمگلنگ کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے اور ایک کیس میں آج تک مفرور ہونے کے باو جود صوبائی سندھ حکومت میں بغیر ادارہ وزیر بھی منتخب کرلیا گیا

کراچی پورٹ کی وزارتیں لینے کی وجہ سے کنٹینرز کے ذریعے اسلحہ اسمگلنگ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے ، مئی 2007ء کو اسلحے سے بھرے5کنٹینرز 90جاتے ہوئے پکڑے گئے اور اب بھی سمندر،تھر پارکھر اور کھوکھراپارکے راستے اسلحہ اسمگلنگ کی جاتی ہے اور جدید ترین اسلحے کے ساتھ 25ہزار دہشت گردوں کی فورس تیار کی جاچکی ہے جنھیں راجھستان اور تامل کے علاقوں میں 1991میں بھاگنے والا ایم کیو ایم کے تربیت ونگ کے سربراہ جاوید لنگڑا جو کہ بھارت منتقل ہوگیا اور آج بھی بھارت سے عسکری ونگ کو تربیت دیتا ہے



عسکری ونگ

سٹی وارڈن کے نام سے 893کارکنان کو سٹی گورنمنٹ کے خرچے پر ASFسے عسکری ٹریننگ دلا کر پوری کراچی میں مخبری کا کام لیا جاتا ہے7300پولیس میں بھرتی کئے جانے والے کارکنان اس کے علاوہ ہیںسٹی پولیس کے نام سے متحدہ نے وہ تمام آلات حاصل کر لئے ہیں جن کی بناءپر متحدہ ہمہ وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خاص طور پر پولیس کی سرگرمیوں سے آگاہ رہتی ہے حساس ادارے اپنی آفیشل رپورٹ میں عسکری ونگ کی تصدیق کرچکے ہیںمتحدہ نے کراچی کے تمام حساس علاقوں میں سیفٹی برئیر لگا کر علاقوںکو عام افراد کے لئے بھی نو گو ایریا بنا دیا گیاپولیس رینجرز ان علاقوں میں داخل نہیںہوسکتی

عسکری ونگ کے ارکان یونٹ آفس میں دو دن اور سیکڑ آفس میں ایک دن ڈیوٹی دیتے ہیں انھیں سرکاری ملازمیتںفراہم کیں گئیں،کراچی میں وسیم اختر عسکری ونگ کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ تنظیمی انچارج حماد صدیقی ہے

اپریل 2010 میںٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کے خلاف رینجرز کو اختیارات دینے کے بعد لائن ایریا کے دو یونٹس سے18 اور قصبہ علیگڑھ سیکڑ سے 9 دہشت گردوں کو گرفتار کیا لیکن چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی ان کو چھوڑ دیا گیا'میڈیا ان کی رپورٹنگ کرچکا ہے

جون 2010میں دوبارہ اس ہی علاقے کے 13دہشت گردوں کو رینجرم نے پکڑا لیکن جوائنٹ انوسٹی گیشن کو حوالے کرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا گیا جس پر ان ہی دہشت گردوں نے کراچی ااپریشن کے پولیس آفیسر انسپکٹر ناصر کو لائن ایریا میں ہلاک کردیا اور خود پولیس نے ان ہی کارکنان پر ایف آئی آر درج کروائی جنھیں سیاسی دباﺅ پر چھوڑ دیا تھا علاوہ ازیںاورنگی پاکستان بازار پولیس، ڈالمیا پولیس، مبینہ ٹاﺅن پولیس، سرجانی پولیس اور گلشن حدید پولیس اور پیر آباد پولیس نے جولائی کے مہینے میں متحدہ کے وزراءکے دباﺅ پر اے این پی کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کارکنان کو بغیر کسی کاروائی کے چھوڑا گیا

اہل تشیع کی مرکزی جماعتوں کے الائنس کے رہنماﺅں نے یوم عاشور کے موقع پر ہونے والے دہماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کا ذمے دار متحدہ کو قرار دیا تھا

کراچی آپریشن کے 111افسران اور اہلکاروں کو چن چن کر ہلاک کردیا گیالیاری کے علاقے میں قبضہ حاصل کرنے کے لئے پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ محاذ آرائی میں پورے شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا حقیقی کے رہنماﺅں اور کارکنان ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ بھی ایم کیو ایم کے علاقوں میں ہوئیجنازوں اور حیدرآباد پریس کلب پر فائرنگ کے واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں

متحدہ کے عسکری ونگ کو کراچی کے داخلی راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جن میں پورٹ ایریا ، انڈس ہائی وے ،نیشنل ہائی وے،سپر ہائی وے اور حب ریور روڈ کے علاقے شامل ہیں متحدہ کے لئے تمام مشکلات یہاں کی پختون اور سندھی بلوچ قدیم آبادیاں ہیں

لہذا تجاوزات کے خاتمے کے نام پر ان آبادیوں کے مکینوں کو بید خل کرنے کی کوشش شہری حکومت کی جانب سے بھی جاری رہی جو اب بڑھتے بڑھتے وفاقی حکومت پر رحمان ملک کے توسط سے دباﺅ بڑھایا جا رہا ہےان تمام داخلی راستوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت نہیں ہے اور انتظامی طور پر بھی ٹاﺅن پیپلز پارٹی اور اے این پی کے پاس رہے ہیںمتحدہ کا اصل منصوبہ داخلی راستوں کے ذریعے کراچی کا کنٹرول حاصل کرنا ہے



الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی کے تمام فلاحی ، رفاعی پلاٹوں ، میدانوں اور پارکوں پر قبضہ کرکے فلیٹس اور مکانات تعمیر کر لئے ہیں نارتھ ناظم آباد ٹاﺅن،، اورنگی ٹاﺅن اور بلدیہ ٹاﺅن کی قیمتی زمنیوں پر قبضہ کر چکے ہیں شہری حکومت اور کے ڈی اے پر اجارہ داری کے باعث ان تمام جہگوں کو ریگولیزائشن کے نام پر سالوں سے آباد رہائشی ایریا بنا کر اربوں روپوں کی زمین ہتیا لی ہے لیاری ٹاﺅن کے 1800ایکڑ قدیم ورثے کی زمین پر قبضے کےخلاف اٹھنے والے ہر آواز کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے

سپر ہائی وے اور سرجانی کے علاقوں میں متعدد اسکیموں کو رہائشی پلاٹ بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے ٬ پلاٹ کمیٹی کے نام سے نارتھ ناظم آباد سیکٹر آفس کو انچارج بنایا گیا ہے ڈاکٹر محمد علی شاہ کی رہائش گاہ حیدری میں آفس قائم ہے جیسے بابر غوری کے ساتھ انکل ممتاز اور فائلنگ کےلئے انچارج انیس خان کنٹرول کرتے ہیں



متحدہ کی جانب سے کراچی کی قیمتی زمینوں پر قبضوں کا مختصر جائزہ

کڈنی ہل شہید ملت روڈ پر قائم پارک کے لئے مختص 62ایکٹر زمین پر ایم کیو ایم کے وزیر صفوان اللہ کی جانب جعلی کو آپریٹو سوسائٹی کے نام سے سے قبضہ

بلدیہ ٹاﺅن سیکٹر 14-A اور سیکٹر 12-Cکے درمیان 100فٹ کے دونوں اطراف کو 20/20کم کرکے کمرشل پلاٹ بنا دئیے گئے

تاج محل پارک بمقام پلاٹ نمبر ST-5بلاک k یو سی 6 نا رتھ ناظم آباد پر قبضہ کرکے مکانا ت بنا دئیے گئے

بورڈ آفس برج کے ساتھ صائمہ برج ویو پروجیکٹ جو سرکاری پارک کی زمین پر تعمیر کیا جا چکا ہے

نارتھ ناظم آباد شارع نورجہاں عقب پولیس اسٹیشن پارک کی زمین پر غیر قانونی تعمیرات قائم کرکی گئی ہے

نارتھ ناظم آباد کے علاقے حضوری پارک پر غیر قانونی مکانا ت کی تعمیرات کرلی گئی ہے

ST-4بلاک Fشفعی مسجد گراوئنڈ پر غیر قانونی تعمیرات قائم کر لی گئی ہیں

پلاٹ نمبر ST-4بلاک 4 فیڈرل بی ایریا کی زمین پر خدمت خلق فاﺅنڈیشن کا قبضہ

اورنگی ٹاﺅن 14میں الطاف نگر کے نام سے سینکٹروں ایکٹر اراضی پر قبضہ

1800ایکٹر قیمتی زمین گٹر باغیچہ پر قبضہ

داﺅد اور یوسف گوٹھ کی زمین پرقبضہ

اتحاد ٹاﺅن می کاٹیج انڈسٹری پر قبضہ

مشرف کالونی سیکٹر 12/14/09/08/04کے پارکوں پر قبضہ



سندھ حکومت کی جانب سے قائم کردہ اینٹی انکروجمنٹ سیل

کراچی کی سرکاری زمینوں کو لینڈ مافیا سے آزاد کرانے کےلئے سندھ حکومت کی جانب سے انکروجمنٹ سیل قائم کیا گیا، جس میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے نمائندہ ڈپٹی جنرل سیکرٹری بشیر جان بھی ہیں متحدہ کی جانب سے صرف قدیم اور مضافاتی آبادیوں پر آپریشن کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ اے این پی شہر کی قیمتی زمینوں پر قبضے کے خلاف بھی آپریشن کرنے کی خواہاں ہے کیونکہ ایم کیو ایم شہری زمینوں پر قابض ہے لہذا وہ شدید مخالفت کرتی ہے ©، آخری میٹنگ میں آپریشن سے متعلق تجاویز سے قبل ہی اے این پی کو اعتماد میں لئے بغیر آپریشن کیا گیا جس پر اے این پی اس بات پر احتجاج کیا کہ میٹنگ سے قبل ہی بغیر اطلاع آپریشن عدم اعتماد کے زمرے میں آتا ہےہزاروں ایکڑ پر قابض مافیا پختونوں ، سندھیوں اور بلوچوں کو کچی آبادیوں سے بیدخل کرنے کے لئے بے بنیاد پروپیگنڈا کرتی رہتی ہے کبھی طالبانزیشن کے نام پر تو کبھی دہشت گردی سے متاثرین کے آمد پر اقلیت میں تبدیل ہونے کے خوف پر، کبھی ڈرگ مافیا اور کبھی لینڈ مافیا

انکروجمنٹ سیل نے اب تک 1825ایکڑ زمین لینڈ مافیا سے خالی کرالی ہے اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ گورنر ہاﺅس میں ADOسٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں قابضین نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے اپنی وابستگی ظاہر کی یہاں تک کہ خود گورنر سندھ اور آصف زرداری سے بھی تعلق جوڑنے کی کوشش کی گئی اور ایک انچ زمین کے حوالے سے بھی کسی نے شاہی سیّد یا اے این پی کا نام تک نہیں لیا





بنیادی حقائق

کراچی کے پانچ اضلاع کی سابقہ حیثیت بحال ہونے کی صورت میں ان کا کنٹرول صرف ضلع سینٹرل تک محدود ہو جائے گا جہاں انھیں پھر بھی جماعت اسلامی کی مضبوط اپوزیشن ملے گیضلع ملیر ضلع غربی اور ضلع جنوبی میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اکثر یت حاصل ہے جبکہ ، ضلع شرقی،اور ضلع سینٹرل میں جماعت اسلامی ا اور چھوٹی جماعتوں کوبرتری ہے مسلسل حکومت میں رہنے کی وجہ سے کراچی کی ضلعی حیثیت کو تبدیل کرکے انتخابی حلقہ بندر بانٹ کی وجہ سے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے پر بھرپور مزاحمت کر رہی ہےمتحدہ بنیادی طور پر اے این پی کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ہے کیونکہ شہری وسائل پر قابض متحدہ سندھ کے وسائل پر بلا

شرکت غیرے ملکیت کی دعوےدار ہے جبکہ اے این پی کا موقف ہے کہ سندھ پر پہلے سندھیوں کا حق ہے اور سندھ دھرتی کے وسائل پر ان محروم طبقوں کا حق ہے جنھیں ایم کیو ایم د با رہی ہے سرکاری ملازمیتں ، تعلیمی اداروں میں طلباءتنظیم اے پی ای ایس او کی جانب سے کسی دوسری قوم کے طالبعلم کو داخلہ ہونے کے باوجود آنے پر پا بندی اور تشدد کا نشانہ بناناڈومی سائل اور پی آر سی اور شناختی کارڈ کے حصول میں رکاﺅٹوں کا مقصد یہ ہی ہے کسی بھی طرح اے این پی پختونوں اور دیگر قومیتوں کی نمائندگی کے لئے فعال نہ ہوسکے خاص طور ہزارہ تحریک کے نام پر جس طرح اپنے زیر اثر علاقوں میں اے این پی کے خلاف چاکنگ کی گئی لیکن پاکستان کی تاریخ کے سی ویو پرہونے والے پر سب سے بڑے پر امن اجتماع نے ثابت کر دیا کہ پختون نمبر ون پر امن قوم ہے

کراچی اور حیدر آباد کو متحدہ اپنی اسٹیٹ بنانا چاہتی ہے اور کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے الگ کرنے کی بھیانک کوشش کرنے میں جتی ہوئی ہے اور صرف اپنے راستے میں اے این پی کو رکاﺅٹ سمجھتی ہے لہذا کبھی مذہبی عقائد کی بناءپر تو کبھی لسانیت کی بناءپر پختونوں کی جانی و مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے

خاص طور پر جب گینگ وار میں متحدہ کا کوئی کارکن ہلاک یا خود متحدہ کا عسکری ونگ کسی کارکن کو ہلاک کر دیتا ہے تو صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر کراچی میں پختونوں کے کاروبار ، ٹرانسپورٹ کو جلا دیا جاتا ہے اور بے گناہ پختون کا قتل عام کرکے ایسے تیسری قوت تو کبھی لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا یا طالبان کا نام لگا دیا جاتا ہے اور

جبکہ 29 اپریل 2010کے 35شہدا ءکو ٹارگٹ کرنے کا الزام ہزارہ تحیریک پر ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔



زاہد بونیرے

No comments:

Post a Comment